Islahih_writer

Add To collaction

اب جگنو نظر نہیں آتے،آخر وہ کہاں چلے گئے ؟

گزشتہ دنوں   ایک  بے تکلف ساتھی  نے مجھ سے پوچھا  کہ’’ آپ کا تعلق تو گاؤں سے ہےنا!‘‘ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی  وہ   بتانے لگاکہ وہ ایک بار مہاراشٹر کے کسی گاؤں گیا  ہوا تھا ۔اس نے وہاں بہت دنوں کے بعد اندھیرا دیکھا تھا۔ کا لم نگار نے ٹو کا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے؟   اس نے آگے بتایا :’’ہاں یار! اندھیر ا دیکھنا کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن میں نے اس اندھیر ے میں جگنو دیکھا تھا۔ میرے بیوی بچے بھی ساتھ تھے۔ میں نے اپنی لائف میں پہلی بار ’ریئل جگنو‘ دیکھا تھا ۔ میرے بچے اسے دیکھ کر خوش ہورہے  تھے ، میری وائف کو بھی بڑا مزہ آرہا تھا ۔‘‘ یہ سب بتاتےہوئے اس کی آنکھوں میں چمک تھی ، بالکل جگنو جیسی۔ 
  اسی طرح تھانے کے اطراف میں مقیم  ایک صحافی دوست نے بتایا: ’’میں  پیدا ہوا تھا گاؤں میں مگر میرا گاؤں اب شہر ہوگیا ہے ۔  بچپن میں ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر آبشار تھا ، تالاب تھے ،  پہاڑ تھا  ۔  وہاں بکریاں چرا کرتی تھیں۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھا نا کھاکر رات کے اندھیرے میں نکلتا تھا۔    آبشا ر کے قریب جا تا تھا ، وہاں جگنو اُڑتے تھے ، انہیں میں حیرت سے دیکھتا رہتا تھا ۔ جی میں آتا تھا کہ انہیں پکڑوں  اور دیکھوں کہ آخر یہ ہے کیا؟مگر ایک تو اندھیرا،  دوسرے پانی ، ایسے میں جگنو پکڑناخطرے سے خالی نہیں تھا ، اس چکر میں گر پڑ جاتے ، ہاتھ پاؤں ٹوٹ جاتے، پھر مغرب کے بعد گھر سے نکلنے پر پابندی لگ جاتی ۔ دور  سے جگنوؤں کو دیکھتے اور سوچتے کہ آخری ا س میں آگ کیسے جل رہی ہے ؟ یہ کیوں جل بجھ رہے  ہیں؟ ‘‘
   انہوں نے مزید بتایا :’’  گاؤں سے شہر  بننےکے سفر میں جگنو کہیں چلے گئے، شاید انہیں اجالے سے وحشت ہوگئی ہے۔ وہ آتے بھی ہوں گے تو اجالے میں انہیں دیکھنا ممکن نہیں ۔  مجھے پورا یقین ہے کہ میر ے بچوں نے جگنو نہیں دیکھا ہوگا ، اس کا مجھے بے حد افسوس ہے ۔ حالانکہ ان کی عمر  دس سے بارہ سال کے درمیان ہے ، میری یہ خواہش ہے کہ کبھی موقع ملاتوانہیں کسی گاؤں لے جا ؤں گا صرف جگنو دکھانے کیلئے، میری نظر میں اسے غور دیکھنے والاقدرت کی کاریگری کا اعتراف کرےگا۔ ‘‘
   صحافی نے کہنے کو تو کہہ دیا کہ و ہ اپنے بچوں کو صرف جگنو دکھانے گاؤں لے جائیں گےمگرانہیں کیا  پتہ کہ اب گاؤں  میں بھی جگنو نہیں  رہے۔ روٹھ کر کہیں چلے گئے ہیں،وہاں بھی نظر وں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ کالم نگار کو یادہے کہ گزشتہ سال کی   ایک رات تھی ، جگنو کی تلاش میں گھر سے نکلا، اسے چھتوں پر تلاش کیا، باغوں میں ڈھونڈا  ، اندھیری رات میں کئی درختوں کی ایک ایک شاخ کا جائزہ لیا ، پھولوں کی کیا ریوں کی سیرکی مگر اسے نہیں ملنا تھا ، نہیں ملا ۔  اس رات  مایوس لوٹ آیا ، جگنو ہاتھ آنا تو دور، نظر بھی نہیں آیا ۔ پھر ایک اور رات آئی ، اس رات کالم نگار گاؤں کی ندی  کے قریب سیڑھیوں پر بیٹھ گیا ، خوشگوار ہوا کے جھونکے چل رہے تھے، آدھے چاندکا عکس ندی میں جھلک رہا تھا ، ندی کے اس پار سے گیڈر کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں، جھینگر بھی بول رہے تھے ، یہ آوازیں سناٹے کو چیر رہی تھیں۔کالم نگار کو ان آواز وں  سے کوئی سروکار نہیں تھا، اس پرتو  بس جگنو  دیکھنے کی دھن سوار تھی ۔ اسے پکڑنے کیلئے ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی، تیسری  سیڑھی ، چوتھی سیڑھی  اور آخری سیڑھی پر پہنچ گیا ۔ وہاں ایک جگہ سرپت  ( جسے کچھ لوگ نر کل بھی کہتےہیں)  کے ڈھیر میں ایک جگنو نظر آیا۔ دیکھ کرحیرت انگیز خوشی ہوئی۔ وہیں بہت دیر تک بیٹھا رہا، جگنو کو جلتا بجھتا ہوا دیکھتا ر ہا، پکڑنے کی ہمت نہیں کی کہ کہیں یہ بجھ نہ جائے۔
   ان سب  میں ایک صاحب  وہاں بھٹک کر آگئے  اور کہنے لگے: ’’اتنے انہارا میں رتیاں کے ایہاں کا کرا تھے مردے، کلہاں  میں  یہیں  سانپ دیکھے رہوں ، دوڑ ائیوں بھاگ گوا ،  مارے کھاتر ڈنڈوو نہ رہا مورے پاس ۔‘‘( اتنے اندھیرے میں رات کو یہاں کیا کر رہے ہو صاحب؟ کل میں نے یہیں پر ایک سانپ دیکھا تھا، اسے دوڑا یا تو بھاگ گیا ، مارنے کیلئے میرے  پا س  ڈنڈا بھی نہیں تھا ۔ )   
  کہاں سانپ کہا ں جگنو ؟ یہ سن کر کالم نگار کو محاورتاً سانپ تو نہیں سونگھا مگر  تھوڑا سا ڈر ضرور لگا ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جگنو کو چھوڑ کر وہاں سے گھر چلا آیا۔ اندھیرے سے اجالے میں آگیا ۔ گھر تک  چاند بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا مگر ذہن میں جگنو ہی چلتا رہا اور جلتا  بجھتا بھی رہا  ۔ 
  کالم نگار کو یاد  ہے ۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے بر سات کی راتوں میں مینڈ ک کی ٹر  ٹر سنائی دیتی تھی تو درختوں  کے ساتھ ساتھ گھر کے ہر حصے میں جگنو نظر آتے تھے۔ آنگن کی مہندی پر بھی ان کا بسیرا ہوتا تھا۔  لمبے لمبے بانس کی پتیوں میں بھی جگنو جھلملاتے رہتے تھے۔ ہر جگہ دکھا ئی دیتے تھے۔  اس دور کے بچوں کی جگنوؤں سے خاص دوستی تھی ۔ وہ اسے ماچس کی ڈبیا میں بند کرتے تھے، اپنی ٹوپیوں میں بھی قید کرلیتے تھے۔ کچھ نادان بچے انہیں پوری طاقت سےپکڑلیتے تھے ، اپنی مٹھی میں دبا  دیتے تھے جس سے ان کی  لا ئٹ ہی نہیں ،ان کی زندگی  ہی کا چراغ  بجھ جاتا تھا، جگنو کو اس حالت میں دیکھ کر کچھ بچے رونے بھی لگتے تھے۔  اسی دور  کےعمران نامی گاؤں کے ایک نوجوان کا کہنا ہے :’’میں بہار کے سیتا مڑھی ضلع  کے بری پھلوریہ گاؤں کا رہنے والا ہوں ، فی الحال بھوپال میں ہوں، جگنو مجھے بےحد پسند ہے۔ اِس دور میں بھی  میری آنکھیں  اسے تلاش کرتی رہتی ہیں ۔ کاش ! اب کہیں جگنو مل جاتا  اور میں اسے چھو لیتا! بس یہی  ایک خواہش ہے، دیکھو کب پوری ہوتی ہے؟ ‘‘

   11
2 Comments

Maria akram khan

14-Sep-2022 12:22 AM

Good

Reply

Arshik

13-Sep-2022 08:50 PM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ❤️کمال کا لکھا ہے آپ نے بہت اچھا👍👍

Reply